۔انتظار لاحاصل
۔ازقلم ام غنی
۔ قسط نمبر۔4
زارون آغا جان کے روم میں ان کو اخبار سنانے میں مصروف تھا ۔۔۔
اخبار ختم ہوئی تو وہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے آغا جان کو دیکھنے لگا۔۔۔آغا جان بہت ضعیف ہو گئے تھے ان کی
نگہداشت زارون ہی کرتا تھا۔۔۔
اگرچہ حویلی میں کافی ملازم موجود تھے مگر وہ خود ان کا خیال رکھتا تھا۔۔۔
اب وہ آغاجان کے سر میں تیل مالش کرنے لگا۔۔۔
"ایک بات پوچھوں آغاجان۔۔۔؟"
وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا پوچھنے لگا۔۔
"ہاں پوچھو آغا کی جان۔۔۔"
"آپ نے بڑے بابا اورکنیز ماما کی شادی کیوں کروائی۔۔۔جبکہ آپ جانتے تھے کہ بابا شادی کر چکے ہیں۔۔۔"
"نہیں بیٹا میں نہیں جانتا تھا نہ ہی یوسف نے مجھے کبھی بتایا۔۔۔۔وہ جرگہ کا فیصلہ تھا کنیز فاطمہ کو ونی کرنے کا۔۔۔۔ اس
وقت میرے سر پر بیٹے کے قتل کا بدلہ سوار تھا۔۔۔۔وقت کے ساتھ میں نے اسے بہو تسلیم کر تو لیا مگر یوسف نے کبھی
اسے اپنایا ہی نہیں۔۔۔۔"
"کیوں آغا جان کیا کمی تھی ان میں۔۔۔؟خوبصورت تھیں پھر بھی۔۔۔؟"
"بیٹا خوبصورتی ہی سب کچھ نہیں ہوتی کنیز پڑھی لکھی نہیں تھی۔۔ایک پڑھا لکھا آدمی اور ایک پڑھی لکھی عورت کو
چاہنے لگا۔۔۔بس یہی بات تھی۔"
"آغا جان میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا ۔۔۔پڑھا لکھا نہ ہونا تو اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔"
" ہاں بیٹا نہیں ہے مسئلہ۔۔۔بہت سی خواتین کو دیکھا ہے جو ان پڑھ ہوتے ہوئے بھی بہت سلیقے سے اپنے گھر بارچلاتی
ہیں۔۔کنیز کو ہی دیکھ لو کتنے سلیقے سے اس نے خویلی کو مینٹین رکھا ہوا ہے کوئی اور ہوتی تو کبھی نہ رکھ پاتی۔۔۔
بس تمہارے تایا کے دل میں رباب کی محبت جاگزین ہو گئی اور وہ اپنی بیوی کو لے کے چپکے سے باہر چلے گئے۔۔۔"۔
"تو آغا جان پھر بھی آپ نے ان کو معاف کر دیا۔۔؟"
"ہاں بیٹا میں بھی تو ایک باپ ہی ہوں۔۔۔
غلطی میری ہی تھی کہ زبردستی ان کا نکاح کروایا۔۔۔۔
میں کنیز سے کبھی نظریں نہیں ملا پایا۔۔۔"
کنیز بیگم آغا جان کے لیے کھانا لاتی ہوئ ان کی بات سن چکی تھی۔۔۔۔
" آغا جان کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ نے کبھی میری حق تلفی نہیں کی۔۔۔ جو میرے نصیب میں لکھا تھا۔۔وہی مجھے ملا۔۔"
آغا جان نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔۔۔
"نہیں بابا آپ کا تو کوئی قصور نہیں آپ مجھ سے معافی مانگ کر مجھے شرمندہ مت کریں۔۔۔"
کنیز بیگم نے ان کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو ہٹانا چاہا۔۔۔
زارون مما کو دیکھ کر رہ گیا۔کتنا حوصلہ تھا ان میں۔۔۔کیسے انھوں نے آغا جان کو معاف کر دیا تھا۔۔ مگر زارون معاف
کرنے والا نہیں تھا اسنے اپنی ماں کے حصے کی خوشیاں واپس لینے کی ٹھان لی تھی کسی بھی صورت۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نورِ جہاں کی زارون سے کافی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو چکی تھی۔۔۔اسے پڑھنے کا بہت شوق
زارون کے بھی یہی شوق ہے اس کے پاس بکس کی خاص کولیکشن تھی۔۔۔
وہ بلا جھجکک زارون کے کمرے میں آ کر بکس مانگ لیتی تھی۔۔۔
زارون اس کے اتنے کانفیڈنس پر حیران ہوتا تھا۔۔جس طرح دھڑلےسے وہ اس کے کمرے میں آ جاتی تھی۔۔۔اسی طرح بات
کرتے ہوئے بہت بڑی پراعتماد ہوتی تھی۔۔۔
آج بھی وہ باہر لان میں بیٹھی کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔۔۔۔جب اس نے دیکھا کہ زارون دروازے میں کھڑا اسے
ہی دیکھ رہا تھا۔
"اس نے زارون کو آواز دی ایسے کیوں کھڑے ہو زارون۔۔۔"
زارون اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔نورجہاں کی آواز پر چونکا۔۔۔۔
اس کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔۔کیا پڑھ رہیں ہیں آپ۔۔؟
ناول ہے۔۔۔
اچھا کون سا۔۔
"Kidnapped...by Robert Louis stevenson..."
ہاں بہت انٹرسٹنگ ناول ہے۔۔۔
مجھے تو ایڈونچر بکس اور ایڈونچر پلیسز گھومنے کا بہت شوق ہے۔۔زارون تھوڑا فرینک ہوتے ہوئے اسے بتا گیا تھا۔۔
"اوہ سچ میں۔۔۔ پھر تو آپ کے پاس کافی کلیکشن ہوگی بکس کی۔۔۔۔"
"ہاں ہے میرے پاس۔۔۔ چاہیے ہوئی تو بتانا مجھے میں دے دوں گا۔۔۔"
"واوُ ڈیٹس گریٹ۔۔۔" چہکی تھی جیسے کونسا عظیم خزانہ اس کے ہاتھ لگا ہو۔۔۔اس کے پر جوش انداز پر وہ ہلکے سے
مسکرایا۔۔
"ٹھنڈ بہت بڑھ رہی ہے آپ اندر چلی جائیں۔۔۔"وہ فکر مند ہوتا ہوا بولا۔۔۔
بلیک سوٹ کے اوپر کندھے پرہاف وائٹ کلر کی شال ٹکائے وہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔۔۔نورِجہاں کو اچھا لگا تھا اسکی فکر
کرنا۔۔۔
وہ اس کو غور سے دیکھتےہوئے اٹھ کر تابع دار سی اندر جا چکی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج شام ڈائننگ ٹیبل پر خوب رونق تھی۔۔۔
آغا جان کے ساتھ حویلی کے سب افراد بہت عرصے کے بعد مل بیٹھ کر کھانے کی میز پر جمع تھے۔۔۔
میز مختلف اقسام کے ڈشز سے سجا ہوا تھا۔۔۔مگر کنیز بیگم کچھ بھی کھانے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔۔زارون ان کو کافی دیر
سے نوٹس کر رہا تھا وہ مسلسل اپنی پلیٹ میں گم سم سی چمچ ہلائے جا رہی تھیں۔۔۔
"رباب یہ لئیجیے یہ ہمارے یہاں کی خاص ڈش ہے۔۔۔۔ٹیسٹ کیجئے آپ کو بہت لذیذ لگے گی۔۔۔"
انہوں نے ڈش رباب بیگم کی طرف بڑھائی تھی۔۔جسے انہوں نے بہت محبت سے تھاما تھا۔۔۔
کنیز اور زارون انکو دیکھ کر ہی رہ گئے۔۔۔
یوسف داد کا رویہ آج بھی ویسے ہی تھا جیسے گذشتہ برسوں میں ہوا کرتا تھا۔۔۔
بے اعتنائی اور لاپرواہی۔۔
آج کی لا پرواہی کی وجہ بھی ان کے سامنے تھی۔۔۔تب یوسف داد کا رویہ اتنا دل چیرنے والا نہیں لگتا تھا۔۔۔مگر آج نجانے
کیوں وہ اس ماحول سے کٹ کر رہ گئی تھی۔۔۔وہ اپنی طبیعت خرابی کا بہانہ کرتی وہاں سے اٹھ کر جا چکی تھیں۔۔۔
اور زارون ان کی پلیٹ کو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔
رباب کھانے کی تعریف کرنے لگی۔۔،"آمنہ بھابھی آپ کے ہاتھ میں واقع بہت ذائقہ ہے۔۔۔"
"نہیں کھانا میں نے نہیں کنیز بھابھی نے بنایا ہے۔۔۔"
یوسف داد کی نظریں بےاختیار ہی کنیز بیگم کی طرف اٹھ گئی تھیں۔۔۔مگر وہ وہاں سے جا چکی تھیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زارون آج بڑے بابا سے کنیز ماما کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔۔۔اس لیے وہ انہیں ڈھونڈتا ہوا باہر لان کی طرف آیا
تھا۔۔۔زارون کو آتا دیکھ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔۔۔
مجھے بہت مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے آپ لوگ میرے پہلے ناول کی طرح اس ناول پر اپنی ویسی پسندیدگی نہیں دکھا
رہے۔اگر آپ بور ہو رہے ہیں تو نہ لکھوں میں۔۔۔😢😢
اتنی مصروف زندگی سے آپ کے لیے ٹائم نکال کر لکھنے کی کوشش کرتی اور آپ لوگ ری ایکشن نہیں دیتے۔۔۔
Welcome to all member's
Yum Stories provide you premium quality stories/Novels we post famous stories we upload stories that you never read before and it's free of cost
you can click on story name and you'll redirect to story
And many more like only on Yum Stories
↓Share Stories with your buddie's Enjoy↓
