انتظارِ لاحاصل
از قلم ام غنی۔
پہلی۔قسط
حویلی فضل داد میں ہر سو خوشیوں کا ساماں تھا۔۔۔
آج بہت ہی لمبے عرصے کے بعد سردار فضل داد کے سب سےبڑے بیٹے، یوسف فضل داد پاکستان واپس لوٹے تھے۔۔۔
س
ردار فضل داد بہت خوش تھے۔۔۔
پوری حویلی میں جشن منائے جارہے تھے۔۔۔
گو کہ سردار صاحب کے دو بیٹے سلیم فضل اور عمر فضل اور بھی تھے مگر پہلی اولاد سے انسیت کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے اور وہ
بھی کافی عرصے سے دور اس لئے آج ان کی خوشی بھی قابل دید تھی۔۔۔
وہ بے صبری سے دروازے پر منتظر تھے۔۔۔جب گیٹ کھلا اور گاڑی باہر پورچ میں آکر رکی۔۔۔
سردار یوسف گاڑی سے اترے تو اپنے بابا کو لاٹھی کے سہارے کھڑے دیکھا تو احترام سے یک دم آگے بڑھے۔۔۔۔اور فرط
محبت سے انہیں گلے لگا لیا۔۔۔
کنیز بیگم، زیورات سے آراستہ کندھے پر محملی شال ٹکائے، سر پر دوپٹہ اوڑھے۔۔۔،یوسف داد کی جانب بہت محبت سے ان کو
سلام کرنے آگے بڑھی تھیں۔۔۔انہیں یوسف داد نے کبھی اتنی خاص توجہ نہیں دی تھی۔۔۔مگر پھر بھی وہ روایتی بیویوں کی
طرح ان سے بہت محبت کرتی تھیں۔۔۔
یوسف داد نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھنا بھی نہیں چاہا تھا۔۔
کچھ لمحے کے توقف سے گاڑی میں سے تو نفوس اور بھی نکلے تھے۔۔جنہیں سردار فضل داد دیکھ کر یک دم چونکے تھے۔۔۔
"یہ کون ہیں یوسف؟؟ انہوں نے تعجب سے پوچھا۔۔۔؟"
کنیز بیگم اور حویلی کے سب مکینوں نے بابا جان کی آواز پر ان کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔۔۔وہاں دو خوبصورت چہرے
ان کو دیکھنے کو ملے۔۔۔
ان دونوں نے آگے بڑھ کر آغا جان کو سلام کیا۔۔۔
آغا جان پریشان سے انہیں پہچان رہے تھے۔۔۔
آپ چلیے تو بابا جان اندر آئیے پھر بتاتا ہوں آپ کو۔۔۔
یوسف داد، انہیں سہارا دیتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ گئے۔۔۔
اور جا کر انہیں بیڈ پر تکیہ کے سہارے بٹھایا۔۔۔اور خود بھی انکے گرد بازو حمائل کر کے بیٹھ گئے اور محبت سے انکے ہاتھ تھام
لئے۔۔۔
وہ دونوں بھی ان کے پیچھے آغاجان کے روم میں آئیں تھیں۔۔۔
بابا جان یہ میری بیوی رباب اور میری پیاری بیٹی نورِ جہاں ہیں۔۔۔
کنیز بیگم۔۔۔، رباب اور نورِجہاں کا تعارف سن کر اندر آتے ہوئے وہیں ٹھٹکی تھیں۔۔۔
"کیا کہہ رہے ہو یوسف۔۔۔؟"آغا جان سیدھے ہو کر بیٹھے تھے۔۔۔
"تم۔۔۔تم یہ سب کیسے کر سکتے ہو۔۔۔؟تمہاری بیوی تو کنیز ہیں۔۔پھر یہ سب۔۔۔؟"
انہوں نے بے یقینی سے یوسف داد کو دیکھا تھا۔۔۔
"بابا۔۔۔ میں جانتا ہوں وہ میری بیوی ہیں۔۔۔مگر بابا۔۔۔وہ میری خوشی کبھی نہیں تھیں۔۔۔۔آپ یہ بات اچھی طرح
جانتے ہیں۔۔۔آپ نے زبردستی انہیں مجھ سے باندھا تھا۔۔۔مگر میں کبھی ان کے ساتھ خوش نہیں رہ پایا۔۔۔
اور سب سے بڑھ کر رباب نے مجھے میری زندگی کا سب سے حسین تحفہ نورِجہاں کی صورت میں دیا ہے۔۔۔۔انہوں نے مجھے
مکمل کر دیا ہے۔۔۔
وہ اپنے بابا کا ہاتھ تھامے محبت سے بولے چلے جا رہے تھے۔۔۔
وہ رباب اور نور کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا دیئے۔۔۔
سردار فضل داد ایک بار پھر بھی یقینی سے رباب اور نور کو دیکھنے لگے۔۔۔
"کتنی بڑی ہوگئی تھی نورجہاں۔۔۔ اور کتنا عرصہ ہم سب کی محبت سے دور رہی تھی صرف اس لئے کہ یوسف کو میری
ناراضگی نہ سہنی پڑے۔۔۔"
میں پہلے ہی یوسف کے ساتھ بہت نا انصافی کرچکا۔۔۔زبردستی کنیز اور یوسف کا نکاح کروایا۔۔۔اتنے عرصے سے یوسف
مجھ سے دور رہا۔۔۔میں ان دونوں کا مجرم ہوں۔۔۔میں اپنی پوتی کو محبت سے محروم نہیں رکھنا چاہتا۔۔
سردار فضل داد اپنے ہی سوچوں میں گم تھے۔۔
انہیں گم سم گم دیکھ کر یوسف داد اٹھ کر ان کے قدموں میں بیٹھ گئے۔۔۔
"بابا جان مجھے معاف کر دیجیے میں نے اگر آپ کا دل دکھایا ہو۔۔۔"وہ بابا کے قدموں میں بیٹھ کر معافی مانگنے لگے۔۔۔۔
"ارے یہ کیا کر رہے ہو یوسف۔۔۔؟ اٹھو میرے پاس واپس آوُ اور نورِجہاں تم بھی یہاں آؤ۔۔۔
نورِجہاں ماں کی طرف دیکھتی ہوئی آگے بڑھ گئی رباب نے بھی جانے کا اشارہ دیا تو وہ آغا جان کے قریب ہو کر بیٹھ گئی۔۔۔
دادا نے اس کا سر محبت سے چوما تھا۔۔
" تم میرے یوسف کی اولاد ہو میرے اپنے یوسف کی۔۔۔محبت سے ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔۔۔ انہوں نے پوتی کو خوشی
سے گلے لگا لیا۔۔۔"۔
کنیز بیگم باہر کھڑی سکتے میں آگئی تھیں۔۔۔انہیں اپنی حیثیت اب اس حویلی میں اجنبی کی سی لگ رہی تھی۔۔۔
انہیں اپنی کم مائیگی کے احساس نے آن گھیرا تھا۔۔۔
رباب نے ان کو اولاد کی خوشی دے کر ان کے دل میں اپنا مقام بنا لیا تھا۔۔۔
وہ الٹے قدموں اپنے کمرے کی طرف واپس پلٹ گئی تھیں۔۔۔۔
کتنے برس انہوں نے اس حویلی میں یوسف داد کے نام پر ان کا انتظار کیا تھا اور آج کنیز بیگم کا یہ انتظار لاحاصل رہا۔۔۔
اس امید پر رہیں کہ جب وہ پلٹیں گے تو شاید کہ انکے دل میں میرے لیے محبت آ چکی ہوگی۔۔۔مگر اُس دل میں تو نئے مکین آباد
ہو چکے تھے۔۔۔
ہوا کے جھونکے سے آنچل ذرا سرکا تو سارا ماضی پھر سے ان کے سامنے آگیا۔۔۔
کنیز بیگم کی شادی یوسف داد سے جرگے کے فیصلے پر طے پائی تھی۔۔۔جب کنیز فاطمہ کے بھائی سے یوسف داد کے چھوٹے
بھائی بختیار فضل داد کا قتل ہوا تھا۔۔۔
اسی خون بہا کے طور پر کنیز فاطمہ کو ونی کر دیا گیا تھا۔۔۔۔
اور وہ یوسف داد کے نکاح میں آئیں تھیں۔۔۔۔
کچھ عرصہ اولاد کا غم کرنے کے بعد سردار فضل داد نے اپنی بہو کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔۔۔وہ ایک نادانستہ قتل تھا۔۔۔
جس کی سزا وہ پوری زندگی اس معصوم کو نہیں دے سکتے تھے۔۔۔انہوں نے اسے دل سے قبول کر لیا تھا۔۔۔
مگر یوسف داد ان کے دل میں کبھی گھر نہ کر سکیں۔۔۔
زبردستی کے رشتے نبھانا بہت مشکل ہوتا ہے خاص کر تب جب دل دوسری جانب مائل ہو۔۔۔یوسف داد کا دل بھی رباب پر
آ گیا تھا۔۔۔ کنیز فاطمہ کو تسلیم کرنا ان کے لئے بہت مشکل تھا۔۔۔
آپ کو آج کی یہ قسط کیسی لگی ہے۔۔۔اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئے گا۔۔۔
Welcome to all member's
Yum Stories provide you premium quality stories/Novels we post famous stories we upload stories that you never read before and it's free of cost
you can click on story name and you'll redirect to story
- pyaar se pyaar tak 1 to 180
- mona chachi 111 to 117
- bhooli dastan 242 to 307
↓Share Stories with your buddie's Enjoy↓
