۔انتظار لاحاصل
۔ازقلم ام غنی
۔ قسط نمبر.2.3
زبردستی کے رشتے نبھانا بہت مشکل ہوتا ہے خاص کر تب جب دل دوسری جانب مائل ہو یوسف داد کا دل بھی رباب پر آ
گیا تھا۔۔۔
رباب ان کی یونیورسٹی فیلو تھیں جب یوسف داد شہر تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے تو وہیں
اپنا دل رباب بیگم کو دے بیٹھے تھے۔۔۔
انہوں نے رباب سے خفیہ نکاح کر لیا تھا۔۔۔اور صحیح وقت کے آنے تک اپنی شادی کو راز میں ہی رکھا۔۔۔۔
مگر وہ مناسب وقت نہ آیا تھا نہ ہی آنا تھا۔۔۔اسی دوران ان کے چھوٹے بھائی بختیار فضل داد کا قتل ہوا تو کنیز فاطمہ کو
ونی کے طور پر نکاح کرکے اس حویلی میں یوسف داد کے نام پر لا بٹھایا گیا۔۔۔
یوسف داد اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے دستبردار ہوتے اور اپنے خفیہ نکاح کو راز میں ہی رکھتے ہوئے رباب بیگم کے
سنگ بیرون ملک شفٹ ہوگئے۔۔۔
اور آج اتنے برسوں کے بعد جب وہ لوٹے تو اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ۔۔۔
اولاد نہ ہونا کنیز بیگم کا بھی کوئی قصور نہیں تھا۔۔۔یوسف داد نے کبھی انہیں ان کا حق دیا ہی نہیں تھا۔۔۔
آغا جان اب اپنے یوسف کی اکلوتی اولاد کو کیسے نہ گلے لگاتے۔۔۔۔انہوں نے خوش دلی سے پوتی اور بہو دونوں کو قبول
کر لیا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ممی۔۔۔ یہ تایا ابو کی دوسری بیوی ہماری کنیز تایئ سے اتنی خوبصورت تو نہیں ہیں۔۔۔۔
پھر بڑے بابا نے کنیز ماما کو چھوڑکر رباب تائی سے شادی کیوں کرلی۔۔۔۔؟"
"بس بیٹا۔۔۔ جب دل کسی پر آجائے تو کسی کی نہیں سنتا۔۔۔
تمہارے بڑے بابا کا دل بھی رباب پر آگیا اسی لیے انہوں نے اس سے شادی کر لی۔۔۔"۔
سلیم فضل کی بیوی آمنہ بیگم اپنی بیٹی فلزاء کے سر میں آئلنگ کرتے ہوئے گویا ہوئیں۔۔۔
"ویسے ممی۔۔۔۔ان کی بیٹی تو بہت خوبصورت ہے۔۔۔بالکل موم کی گڑیا لگتی ہے۔۔۔ہے نا۔۔۔۔؟"
"ہاں اپنے باپ پر گئی ہے اس لئے خوبصورت ہے۔۔۔"
ہاں۔ ۔۔ سچ میں تایا تو بہت خوبصورت ہیں۔۔۔ اور رباب تائی تو بالکل بھی خوبصورت نہیں ہے۔۔۔ یوسف تایا اور کنیز تائی کی
جوڑی بہت خوبصورت ہو گی جوانی میں بھی۔۔۔"
"آستہ بول پگلی کوئی سن لے گا۔۔۔"آمنہ بیگم نے اس کے سر کو تھپکا۔۔۔
"اتنی بھگوڑی ہوگئی ہے۔۔۔یہ نہیں پتا کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں۔۔۔"
"اوہو ممی۔۔۔۔ٹھیک تو کہہ رہی ہوں میں۔۔۔"
"اچھا بس بس کسی نے سن لیا تو شامت آجائے گی۔۔۔اٹھو اپنے بال بھاندو۔۔۔"۔
جبکہ فلزاء یوسف داد کی جوانی اور کنیز بیگم کی جوانی کو امیجن کرتے ہوئے ان کی جوڑی کو سوچنے لگی۔۔۔اور مسکرا
دی۔۔۔
وہ ایسی ہی تھی بے باک نڈر اور ہر بات منہ پر کر دینے والی۔۔۔ جو کسی سے نہیں ڈرتی تھی سوائے اپنے آغا جان کے۔۔۔۔
کیونکہ ان کے رعب اور غصے کے آگے کسی کے بولنے کی ہمت نہیں تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیم فضل داد سے چھوٹے بیٹے عمر فضل داد تھے جنکی اکلوتی اولاد ۔۔۔۔زارون عمر داد تھے۔۔۔۔
عمران فضل داد اور حلیمہ بیگم کا ایک کار ایکسڈنٹ میں انتقال ہونے کے بعد کنیز بیگم نے ہی زارون کو گود لے لیا تھا۔۔۔
تب وہ دو سال کا تھا انہوں نے ماں بن کر زارون کی پرورش کی تھی۔۔۔زارون نے ان کو شروع سے ہی ماما کہہ کر بلایا
تھا۔۔۔
وہ ان سے بہت والہانہ محبت کرتا تھا۔۔۔محبت کیسے نہ کرتا کنیز بیگم نے بھی تو اسے ماں بن کر ہی پالا تھا۔۔۔خالی کوکھ
کے احساس کو لیے وہ زارون کو اپنا بیٹا مانتی تھیں۔۔۔اس کی تمام تر ذمہ داریاں کنیز بیگم دل و جان سے پوری کرتی
تھیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زارون کنیز بیگم کے روم میں داخل ہوا تو ان کے رونے کی آواز سنائی دی۔۔۔۔
وہ دھیرے قدموں سے آگے بڑھتا ہوا پریشان سا ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔۔۔
"کیا ہوا ماما۔۔۔۔ آپ اس طرح کیوں رو رہی ہیں۔۔۔؟"
"کچھ نہیں بیٹا بس ایسے ہی۔۔۔ دل بھر آیا۔۔۔"۔
"ادھر میری طرف دیکھیں۔۔۔۔"۔
"آپ کو بڑے بابا کی یاد آ رہی ہے نا۔۔۔۔"؟
انہوں نے آنسو بھری آنکھوں سے زارون کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔
"وہ۔۔۔ وہ آ گئے ہیں بیٹا۔۔۔"۔
"کیا۔۔۔ واقعی۔۔۔۔؟ تو آپ اس طرح رو کیوں رہی ہیں آپ تو بہت منتظر تھیں ان کی کہ ایک دن وہ لوٹ کر ضرور آئیں گے۔۔۔
پھر چہرے پر اتنی اداسی اور آنکھوں میں اتنی نمی کیوں۔۔۔؟"
"ہاں زارون۔۔۔۔میں منتظر تھی مگر میرا انتظار لاحاصل رہا۔۔۔"۔وہ زمین کی طرف آنسوں بھری نگاہیں مرکوز کیے ہوئے
بولیں تھیں۔۔۔
وہ سوالیہ نظروں سے ان کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔۔ "کیا مطلب ماما۔۔۔۔؟"
"انھوں نےخفیہ طور پر دوسری شادی کر رکھی تھی۔۔۔اب وہ اپنی بیوی اور بیٹی کے ہمراہ آئے ہیں۔۔۔"
"کیااااا۔۔۔۔؟"بے یقینی سے انہیں دیکھنے لگا۔۔۔
"اور بابا جان۔۔ انہوں نے یوسف کو معاف کرکے ان کی اولاد کو بھی گلے سے لگا لیا ہے۔۔"۔وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رونے
لگیں۔۔۔
زارون حیران سا ان کے چہرے کو تکتا رہا وہ یک دم سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی مٹھیاں بھینچنے لگا۔۔۔
وہ اپنی ماں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔اور آج یہ آنسو بہت شدت اختیار کر گئے تھے۔۔۔ صرف یوسف داد اور
ان کی فیملی کی وجہ سے۔۔۔
وہ اپنی ماں کو تسلی دیتا ہوا آغا جان کے کمرے کی طرف بھاگا تھا۔۔۔
ابھی دیکھ لیتا ہوں میں کون ہیں وہ۔۔۔
آغا جان کے روم کے باہر کھڑا ہو کر اندر کا جائزہ لینے لگا۔۔۔
آغاجان یوسف داد اور ان کی بیٹی کے گرد بازو حمائل کئے بیٹھے تھے۔۔۔
تبھی آغاجان کی نظر دروازے میں کھڑے زارون پر پڑی تو انہوں نے زارون کو اندر بلایا۔۔
"آوُ بیٹا زارون وہاں کیوں رک گئے دیکھو تو کون آیا ہے۔۔۔"
زارون اپنے غصے کو ضبط کرتا ہوا دادا کے قریب ہو گیا اور انہیں سلام کرنے لگا۔۔۔
"السلام علیکم آغا جان۔۔۔"
"وعلیکم السلام میری جان۔۔۔"
یوسف داد کھڑے ہو کر زارون کو پر جوش انداز میں میں ملے تھے۔۔۔
"کیسے ہو زارون۔۔۔؟ دیکھو تو تایا کے کندھے سے کندھا مل گیا ہے۔ ۔ ما شاءاللہ سے اب تو ہمارے برابر آ گیا ہے جوان۔۔۔
کتنا چھوٹا سا تھا جب میں یہاں سے گیا تھا۔۔۔وہ پر جوش انداز میں زارون سے ملے تھے۔۔
جبکہ زارون اپنے تمام تر غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے ہوئے انھیں ویلکم کہنے
لگا۔۔۔۔
بیٹا یہ ہیں نورِجہاں۔۔۔یوسف کی بیٹی۔۔۔آغا جان نے دونوں کا تعارف کروایا۔۔۔
نور جہاں یہ تمہارے چچا کا بیٹا ہے ذراون عمر۔۔۔
نورجہاں تعارف کے دوران ہی اس کا جائزہ لے چکی تھی۔۔۔
دراز قد، گندمی رنگت اور ہلکے گولڈن بالوں کے ساتھ وہ بھرپور شخصیت کا حامل انسان تھا۔۔۔
"Nice to meet you... Mr Zaroon umar..."
"آپ سے مل کر اچھا لگا مسٹر زارون عمر۔۔۔"۔
زارون اس کے منہ سے اپنا نام اتنی بے باکی سے سن کر اس کے چہرے کابغور احاطہ کرنے لگا۔۔۔
اتنی ہمت تھی اس لڑکی میں۔۔۔
زارون کو اس کے پورے نام سے کبھی کسی نے نہیں بلایا تھا۔۔۔
وہ اپنے تمام تر غصہ بھول چکا تھا۔۔۔
وہ اسکی شخصیت کا بھرپور جائزہ لینے لگا۔۔
نورجہاں خوبصورت تھی۔۔بلیک اوور کوٹ پہنے، گلے میں سرخ مفرل، شولڈر پر سلکی بال بکھیرے، موٹی موٹی آنکھوں
والی۔۔۔وہ اسے اپنی نظروں میں مقید کرنے لگا۔۔۔
آغا جان نے اس کی توجہ نورِ جہاں سے ہٹاتے ہوئے رباب بیگم کی طرف کروائ تھی۔۔۔بیٹا یہ تمہاری تائی ہیں۔۔رباب بیگم۔۔۔
وہ انہیں سلام کرتا ہوا کسی کام کے بہانے باہر نکل گیا۔۔۔
.........................
نورجہاں اپنے آغا جان کے روم میں بیٹھی ان کی حویلی کے قصے سننے میں مصروف تھی۔۔۔
آغا جان سے اس کو بہت لگاؤ ہو چکا تھا۔۔۔اسے ان کی صحبت میں رہنا اچھا لگتا تھا۔۔۔
آغاجان باتوں ہی باتوں میں اس کی تربیت پر بھی پوری توجہ دے رہے تھے۔۔۔
آج انہوں نے اس کی توجہ اس کے لباس کی طرف مبذول کروائی تھی۔۔۔
اس نے آج ٹی شرٹ کے ساتھ جینز پہن رکھی تھی۔۔گلے میں حسب معمول ہلکا سا سٹالر تھا۔۔۔
"بیٹا۔۔۔اب اپنے ماحول کے ساتھ ساتھ اپنے لباس کو بھی چینج کرو۔۔یہ مغربی لباس ہمارے معاشرے میں اچھا نہیں لگتا۔۔۔
آپ فلزاء کی طرح مشرقی لباس میں رہا کرو۔۔۔ویسے بھی عورت ڈھانپ کر رکھنے کی چیز ہے۔۔یوں سب کے سامنے آؤ گی
تو مجھے بھی اچھا نہیں لگے گا بیٹا۔۔۔".
سردار فضل داد نے اسے بہت محبت سے قائل کیا۔۔۔
"جی آغا جان۔۔۔اگر آپکو میرا یہ لباس پسند نہیں ہے تو میں اس کو بدلنے کی کوشش کروں گی۔۔۔"۔
اس نے مسکراتے ہوئے آغاجان کے شانے پر سر ٹکا دیا۔۔
"جیتی رہو میری بچی۔۔۔"آغا جان کو چند ہی دنوں میں اسی لیے وہ بہت عزیز ہو گئ تھی کیونکہ وہ انکی ہر بات کا مان
رکھتی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بابا۔۔۔مجھے کچھ شاپنگ کرنی ہے چلیے نا ہمارے ساتھ۔۔۔ نورِجہاں اور رباب بیگم تیار کھڑی تھیں جب یوسف داد فریش ہو
کر نکلے تھے۔۔۔ساتھ ہی نورجہان نے فرمائش کر ڈالی تھی۔۔۔
"کیا شاپنگ کرنی ہے اب ہماری بیٹی نے۔۔؟"
" بابا کچھ ڈریسز لینے ہیں،،،، آغاجان کو یہ جینز اور شرٹس پسند نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ لڑکیاں مشرقی لباس میں ہی
پیاری لگتی ہیں۔۔۔
آپ چلیے میرے ساتھ آپ کو آغا جان کی چوائس کا بخوبی علم ہو گا۔۔۔وہ محبت سے ان کی بانہوں میں جھولتے ہوئے
بولی۔۔۔
"تو چلئے میری جان۔۔۔ آپ کے لئے تو بابا کی جان بھی حاضر ہے۔۔۔"۔
"او ہو کیسی باتیں کرتے ہیں یوسف۔۔۔"رباب بیگم نے منہ بسورتے ہوئے ان کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
"اللہ آپ کی عمر دراز کریے۔۔۔آمین۔۔۔"
وہ نور کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائے۔۔۔چلیے میں تیار ہو کر آتا ہوں آپ ویٹ کیجیے میرا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کنیز بیگم اپنے روم کی کھڑکی میں کھڑی باہر لان کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں۔۔۔
بہار کے موسم میں خوبصورت پھول کھل چکے تھے پورا لان خوبصورت رنگوں اور خوشبوں سے بکھرا ہوا پڑا تھا۔۔۔مگر
پھر بھی اندر کی اداسی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔
گو کہ یوسف داد نے کبھی ان سے محبت نہیں کی تھی مگر پھر بھی دل میں ایک امید تھی کہ وہ ضرور لے لوٹ کر آئیں
گے۔۔۔مگر وہ تو کب سے اپنی نئ زندگی میں خوش و خرم تھے۔۔۔
نورجہاں رباب کے ساتھ چہکتی ہوئ باہر نکلی تھی۔۔کنیز بیگم کی نظریں ان دونوں پر ٹھہر گئیں کچھ ہی دیر کے بعد یوسف
داد بھی ان کے پیچھے نکلے تھے۔۔۔
کتنی مکمل فیملی لگ رہی تھی ان کی۔۔۔
اور میں میں کہاں ہوں اس سب میں ۔۔۔وہ خود سے گویا ہوئیں۔۔۔۔
کنیز بیگم دیوار کے سہارے کھڑی ہوگئیں۔۔۔دل یکدم پھٹ پڑا تھا۔۔۔۔آنسو ان کے نرم رخساروں کو بھگونے لگے تھے۔۔۔
زارون ان سے کچھ ضروری کاغذات لینے آیا تھا۔۔۔ان کو کھڑکی کے سہارے کھڑے دیکھ کر وہ پریشان ہوا اور آگے بڑھا۔۔۔
کیا ہوا مما آپ ایسے کیوں کھڑی ہیں۔۔۔ساتھ ہی اس کی نظر باہر کے منظر پر پڑی۔۔تو فورا سے ان کے آنسوں کی وجہ
سمجھ گیا۔۔۔اور انہیں کندھے سےتھام کر کھڑکی سے ہٹانا چاہا وہ جانتا تھا انہیں یہ منظر اذیت دے رہاہے۔۔۔۔
زارون تم نے دیکھا کہ کتنی مکمل لگ رہی تھی رباب اپنے شوہر اور بیٹی کے ساتھ۔۔۔
مما آپ دل چھوٹا مت کیجئے ایک وقت آئے گا جب بڑے بابا کو آپ کی موجودگی کا احساس ہوگا۔۔۔
کب۔۔۔ کب ہوگا۔۔۔ انہیں میری موجودگی کا احساس کتنے سال ہوگئے میں نے ان کے نام پر اس حویلی میں گزار دیے۔۔۔میں
نے آغا جان کو۔۔۔ اس حویلی کے مکینوں کو کبھی غیر نہیں سمجھا۔۔۔بدلے میں مجھے کیا ملا۔۔۔؟
بس بڑی بیگم صاحبہ کا رتبہ۔۔۔۔کیوں ہوں میں بڑی بیگم۔۔۔؟؟
کاش مجھے یہ رتبہ نہ ملا ہوتا۔۔۔مگر میرا شوہر تو میرے ساتھ ہوتا۔۔۔ان کا بھائی قتل ہوا اس میں میرا کیا قصور تھا مجھے
کیوں سزا کی بھینٹ چڑھایا گیا۔۔۔؟؟
کتنی نا مکمل ہوں میں۔۔۔۔وہ آج روتے ہوئے بولتی چلی گئیں۔
آنسو متواتر ان کے گالوں سے بہنے لگے۔۔۔
زارون کا دل یکدم کراہا تھا۔۔۔
ماما میں دلواؤں گا آپ کو آپ کا مقام۔۔۔ آپ دیکھئے گا آپ کا بیٹا آپ کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہے۔۔۔
اللہ نہ کرے بیٹا تمہیں کبھی کچھ ہو۔۔۔انہوں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔تمہی تو میرے جینے کا واحد سہارا ہو۔۔۔تم نہ
ہوتے تو میں اپنی زندگی کب کی ختم کر چکی ہوتی۔۔۔
تو پھر آپ وعدہ کیجئے اب آپ کبھی نہیں روئیں گی۔۔۔
زارون نے ان کے گالوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے ان سے وعدہ لیا تو کنیز بیگم نے بھی مثبت میں سر ہلا دیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ بیگم اور کنیز بیگم دونوں ڈنر کی تیاری کرنے میں مصروف تھیں۔۔۔جب رباب بھی کچن میں آ کر ان کی ہیلپ کروانے
لگی۔۔۔۔
کنیز بیگم انہیں دیکھ کر کچن سے نکلنے لگیں،تو رباب نے ان کا بازو پکڑ کر ان کو روکنا چاہا۔۔۔
کنیز میں جب سے آئی ہوں میں دیکھ رہی ہوں آپ مجھ سے خفا ہیں۔۔۔کوئی خاص وجہ مجھ سے ناراضگی کی؟؟
کیا تم نہیں جانتی رباب؟؟ یا بننے کی ایکٹنگ کر رہی ہو۔۔۔؟؟
کیا مطلب۔۔۔ میں سمجھی نہیں۔۔؟؟
میرا مطلب واضح ہے کہ میں یوسف داد کی بیوی ہوں۔۔۔اور اتنا عرصہ وہ مجھ سے دور رہے صرف اور صرف تمہاری
وجہ سے۔۔۔کیا ملا تمہیں ہمارے درمیان آ کر۔۔۔؟
وہ انکے لہجے کی تلخی کو ایک پل میں ہی سمجھ گئیں۔۔۔
کیا۔۔۔کیا کہا۔۔۔میں آئی تم دونوں کے درمیان۔۔۔یا تم آئی ہو ہمارے درمیان۔۔۔؟؟
تمہیں شاید یوسف نے بتایا نہیں تھا۔۔۔کہ تم سے شادی سے پہلے وہ مجھ سے شادی کر چکے تھے۔۔۔
جہاں تک تمہارے اور ان کے درمیان آنے کی بات ہے۔۔تم ان کی خوشی کبھی نہیں تھی۔۔۔تم بردستی ان کے سر پر مسلط کی
گئی تھی۔۔۔رباب بیگم کا لہجہ بھی تلخ ہونے لگا۔۔۔
اشتعال سے کنیز بیگم کی آنکھیں بھی لال ہونے لگیں۔۔۔مگر وہ کچھ بولنے کے قابل کہاں رہیں تھیں۔۔۔
رباب غصے سے پھنکتی ہوئی باہر نکل گئی تھیں۔۔۔۔
آمنہ بیگم بھی انہیں اس حال میں دیکھ کر ان کے لیے پانی کا گلاس لے کر آئی تھیں۔۔۔۔
آمنہ بیگم ان کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔۔
بظاہر بہت ہی دلیر کنیز بیگم اندر سے کس قدر ٹوٹی ہوئی تھیں انہیں آج احساس ہو رہا تھا۔۔۔
باہر کھڑا زارون سارا معاملہ دیکھ اور سن چکا تھا۔۔۔وہ بہت ضبط کرتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔
اس نے شروع سے ہی اپنی ماں کی آنکھوں میں تایا یوسف داد کے لئے انتظار ہی دیکھا تھا مگر اس انتظار کے بدلے
آنکھوں میں ہمیشہ نمی ہی رہی تھی۔۔۔۔
وہ تایا یوسف داد سے اپنی ماں کے حق کے لیے بات ضرور کرے گا۔۔۔اس نے خود سے ارادہ باندھا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلزاء نورِ جہاں کو حویلی دکھا رہی تھی۔۔۔ان دونوں کی اچھی دوستی ہو گئی تھی۔۔۔
فلزاء کی پہلے ذارون سے بھی بہت دوستی تھی۔۔۔مگر اب وہ زیادہ وقت باہر کے کاموں میں مصروف رہتا تھا۔۔۔
کیونکہ سلیم بابا اکیلے ساری ذمہ داریاں نہیں سنبھال سکتے تھے۔۔۔اس لیے زارون بھی ان کے ساتھ ہی سارے معاملات
دیکھتا تھا۔۔۔اسلیے حویلی کم ہی نظر آتا۔۔۔
حویلی کے لاؤنج میں سب مکینوں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔۔۔۔عمر چچا اور حلیمہ چچی کی تصویر کے سامنے آکر وہ
پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔۔
یہ کون ہیں فلزاء۔۔۔۔عمر چچا کی شکل بلکل زارون سے ملتی تھی۔۔۔
یہ زارون کی ممی اور بابا ہیں۔۔۔ان دونوں کی ڈیتھ ہوچکی ہے۔۔
او ہو سو سیڈ۔۔۔
چلو جلدی کرو ممی بلا رہی ہے کھانے پر۔۔۔۔فلزاء اسے متاسف دیکھ کر اسے لئے ڈائننگ ٹیبل کی طرف چل پڑی۔۔۔
اور وہ سوچ میں پڑ گئی مطلب کہ کنیز آنٹی زارون کی سوتیلی ماں ہیں۔۔۔۔وہ سوچتے ہوئے آگے بڑھ گئ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Welcome to all member's
Yum Stories provide you premium quality stories/Novels we post famous stories we upload stories that you never read before and it's free of cost
you can click on story name and you'll redirect to story
- pyaar se pyaar tak 1 to 180
- mona chachi 111 to 117
- bhooli dastan 242 to 307
↓Share Stories with your buddie's Enjoy↓
