۔انتظار لاحاصل
۔ازقلم ام غنی
۔ قسط نمبر۔5
زارون آج بڑے بابا سے کنیز ماما کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔۔۔اس لیے وہ انہیں ڈھونڈتا ہوا باہر لان کی طرف آیا
تھا۔۔۔زارون کو آتا دیکھ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔۔۔
"آو بیٹا زارون۔۔۔"
"اسلام علیکم بڑے بابا۔۔۔"
"وعلیکم سلام۔۔۔۔کیسے ہو جگر؟"
یوسف داد نے دوستانہ لہجے میں زارون کے کندھوں کے گرد بازو حمائل کیا۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔۔بڑے بابا آپ سے ضروری بات کرنی تھی۔۔۔"
"کہو بیٹا کیا بات ہے۔۔۔؟"
وہ کرسی پر سیدھے ہو کر بیٹھ گیا ۔۔۔
وہ کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا۔۔۔
"بڑے بابا آپ کا رویہ کنیز ماما کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہے۔۔۔
میں چاہتا ہوں آپ دونوں کے ساتھ برابر کا سلوک رکھیں۔۔
مما اور تائ رباب کے ساتھ۔۔۔"
یوسف داد زارون کے چہرے کو بغور دیکھنے لگے تھے۔۔،،،
کیا وہ اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ ان سے اس سلسلے میں بات کرتا۔۔۔
"بابا۔۔۔۔ کنیز ماما نے ساری زندگی آپ کے نام پر اس حویلی میں گزار دی۔۔۔آپ نے انہیں اس حال میں کیوں رکھا۔۔۔؟ان کے
چہرے کی طرف بغور دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔"
"دیکھو زارون یہ میرا پرسنل میٹر ہے۔۔۔تم اس معاملے سے دور ہی رہو تو اچھا ہوگا۔۔۔"
"یہ آپ کا پرسنل میٹر نہیں ہے میری ماں کی زندگی کا سوال ہے۔۔۔"ان کی بات سن کر ضرور طیش میں آیا تھا۔۔۔
"یہ مت بھولو کہ وہ تمہاری سگی ماں نہیں ہے زارون۔۔۔جسکے لیے تم مجھ سے بات کرنے کی تمیز بھی بھول گئے۔۔۔۔"
"سگی یا سوتیلی ماں، ماں ہی ہوتی ہے۔۔۔انہوں نے کبھی مجھے غیر نہیں بلکہ اپنا بیٹا ہی سمجھا ہے۔۔۔۔
اور آج یہی بیٹا ان کی خوشیوں کے بھیک آپ سے مانگتا ہے۔۔۔"
زارون اب کی بار دھیمے لہجے میں ان کی آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔
"تو زارون میاں۔۔۔ تم کیا چاہتے ہو مجھ سے۔۔۔؟میں اس عمر میں ان کے ساتھ دل لگیاں کرتا پھروں ایک جوان بچی کا باپ
ہو کر۔۔۔۔؟؟"
انہوں نے زارون کی طرف دیکھتے ہوئے تیوری چڑھائی تھی۔۔۔۔
"دل لگیاں۔۔۔۔؟ان کے ساتھ خوشی سے بات کرنے کو آپ دللگیوں کا نام مت دیں بڑے بابا۔۔۔جیسے آپ رباب تائی کو اہمیت
دیتے ہیں ویسی اہمیت میری ماما کو بھی چاہیے۔۔۔انہیں بھی رباب تائی کی طرح مساوی حقوق چاہیے۔۔۔
کبھی انہیں بھی پوچھ لیا کریں کسی چیز کی ضرورت ہو تو۔۔۔
مانا کہ آپ کی عمر ان چونچلوں سے نکل چکی ہے مگر وہ بھی ایک انسان ہیں جب کبھی رباب تائ کو باہر لے کے جایا
کریں تو انہیں بھی پوچھ لیا کریں۔۔۔"
"اس کے علاوہ آپ بھی سمجھ دار ہیں۔۔۔ورنہ روز محشر آپ اس کمی کے حساب کے لیے بھی تیار رہیے گا جسے ساری
زندگی آپ نے کچھ نہ سمجھا۔۔۔
انہیں گہری سوچ میں ڈوبا چھوڑ کر وہ اٹھ کر جا چکا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا جان نے رباب اور یوسف کو اپنے کمرے میں ضروری بات کے لیے بلایا تھا۔۔۔۔
"یوسف۔۔۔۔ رباب۔۔۔ میں نے تمہیں اپنے روم میں ایک خاص مقصد کے لیے بلوایا ہے۔۔۔۔"
"کیا بات ہے آغا جان۔۔۔۔۔؟"
"میں چاہتا ہوں یوسف۔۔۔میں اپنے زارون کی خوشی دیکھ لوں۔۔۔"
"بابا زارون کی خوشی سے ہمارا کیا تعلق ہے بھلا۔۔۔۔"
ہاہاہا۔۔۔ آغاجان بمشکل ہنسے تھے۔۔۔ہنسنے کی وجہ سے انہیں ذرا غوطا لگا تھا۔۔۔
یوسف داد نے پانی گلاس میں انڈیلا اور ان کے منہ سے لگا دیا۔۔۔
سانس بحال ہونے پر انہوں نے بات پھر سے شروع کی۔۔۔
"ارے یوسف تمہارا ہی تو لینا دینا ہے۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تمھاری بیٹی نورِجہاں کا ہاتھ میں اپنے زارون کے ہاتھ میں دے
دوں۔۔۔۔"
"تم دونوں کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا میرے فیصلے پر۔۔۔؟"
"ارے نہیں آغاجان کیسی باتیں کرتے ہیں آپ،،،، کیا اعتراض ہو سکتا ہے بھلا۔۔۔"
"زارون دیکھا بھالا بچہ ہے اور بہت ہی اچھی طبیعت کا مالک ہے۔۔۔"
"مگر مجھے اعتراض ہے آغا جان۔۔میں نے اپنی بیٹی کو گاوُں اور حویلی کی روایات سے ہمیشہ دور ہی رکھا ہے۔۔۔میں
نہیں چاہتی کہ میری بیٹی اپنی ساری زندگی ان فرسودہ روایات کی نظر کر دے۔۔۔۔"
"کیا مطلب ہے بہو بیگم آپ کا۔۔۔ کون سی فرسودہ روایات کی بات کر رہی ہیں آپ۔۔۔۔؟"
" وہی روایات جن کی بھینٹ آپ نے کنیز فاطمہ کو چڑھایا تھا۔۔۔"انہوں نے سخت لہجے میں آغا جان کو ماضی کی جھلک
دکھائی تھی۔۔۔
"رباب یہ کس طرح بات کر رہی ہو آغا جان سے۔۔۔"یوسف داد نے انہیں ڈانٹا تھا۔۔۔۔
میں ٹھیک کہہ رہی ہوں یوسف۔۔ میں اپنی اکلوتی بیٹی کی زندگی یوں برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔۔۔اور ایک ایسے شخص
کے ساتھ جس کی گھٹی میں اس گاؤں کی روایات بہت مقدم ہوں۔۔۔۔"
"میں کیوں اپنی بیٹی کو اس ماحول میں بیاہ دوں۔۔۔۔آپ خود سوچیں یوسف کیا آپ کی بیٹی نورِجہاں اس ماحول میں ایڈجسٹ
کر پائے گی۔۔۔؟"
"میں تو یہاں اس لیے آئی تھیں آغاجان سے ان کی پوتی کو ملوا سکوں۔۔۔۔مگر آغا جان آپ۔۔۔"
رباب بیگم کی آواز رندھ گئی تھی۔۔۔۔
"ٹھیک ہے بہو بیگم اگر آپ کو ہمارا یہ فیصلہ پسند نہیں ہے تو ہم اپنا فیصلہ واپس لیتے ہیں۔۔۔"
رباب بیگم وہاں سے اٹھ کر جا چکی تھی۔۔۔
آغا جان آپ فکر مت کیجئے۔۔۔میں رباب کو سمجھاؤں گا۔۔۔
آپ تسلی رکھیے۔۔۔ ریلیکس کیجیے۔۔۔۔ ان کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے اور ان کا کمبل درست کرتے انہیں شب بخیر کہتے
باہر چلے گئے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوسف اپنی بیٹی نور جہاں کے روم میں آئے تھے اس وقت کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھی۔۔۔
"آئیے بابا۔۔۔کیسے ہیں آپ۔۔۔؟"وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئ۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں میری جان تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔"
"جی بابا کہیے۔۔۔کیسی بات۔۔۔۔؟"
"بیٹا زارون آپ کو کیسا لگتا ہے۔۔۔؟"
وہ ان کے سوال پر حیران ہوئی تھی۔۔۔
"کیا مطلب بابا۔۔۔اچھا ہے"۔۔۔ وہ کچھ کنفیوز سی بولی۔۔۔
" اگر آپ کا رشتہ زارون سے طے پا جائے تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا۔۔۔؟"
نورجہان اپنے باپ کے چہرے کو دیکھنے لگی۔۔۔۔اور سر جھکائے بولی۔۔۔" بابا میں نے زارون کو کبھی اس نظر سے نہیں
دیکھا۔۔۔"
" آغا جان چاہتے ہیں کہ آپ کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے آپ کو کوئی اعتراض۔۔۔؟"
"بابا مجھے سوچنے کے لئے تھوڑا وقت چاہیے۔۔۔"
"ٹھیک ہے بیٹا کل تک مجھے بتا دو۔۔۔مگر ایک بات یاد رکھنا ہم سب تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔آغا جان تم دونوں کی
خوشی چاہتے ہیں۔۔۔۔ ان کی شفقت کے نیچے تمہیں عافیت اور سکون ملے گا۔۔۔۔"اسے میری اور آغا جان کی التجا
سمجھنا۔۔۔"آغا جان اپنے بچوں کی خوشی دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔مجھے امید ہے کہ آپ انہیں مایوس نہیں کریں گی۔۔۔"
وہ کہتے ہوئے نور جہاں کے سر پر ہاتھ رکھتے اٹھ کر چلے گئے۔۔۔
نورِجہاں کافی دیر تک زارون عمر کے بارے میں سوچتی رہی۔۔۔
یقیناً ایک اچھا انسان ہے اپنے آغا جان کی طرح۔۔۔انہی کی صحبت میں ہی تو رہتا ہے۔۔۔کبھی میں نے اس میں برائی بھی
نہیں دیکھی۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔ کیا میں آغا جان کے فیصلے پر حامی بھر دوں۔۔۔۔وہ خود سے ہمکلام ہوئ تھی۔۔۔۔
یا اللہ کیسی مشکل آن پڑی ہے میری ہیلپ کر دیں پلیز۔۔۔۔۔
وہ آنکھیں موندے چہرہ چھت کی طرف کئے اللہ کو پکارنے لگی۔۔۔
"تبھی رباب بیگم کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔۔۔۔ نورِ جہاں کے چہرے کو دیکھنے لگی۔۔۔
نورِ جہاں تم انکار کر دو زارون کے رشتے سے۔۔۔"
"مگر ماما۔۔۔آغا جان۔۔۔"
"کیا تم چاہتی ہو کہ آغا جان تمھیں بھی کنیز بیگم کی طرح اس حویلی میں قید کر دیں۔۔۔۔"
"ؓمگر ماما اس میں آغا جان کا تو کوئی قصور نہیں تھا۔۔،،
ماما میں ذارون کو تو نہیں جانتی مگر میں اپنی بابا جان اور اپنے آغا جان کو جانتی ہوں ان کا انتخاب میرے لئے بہترین ہی
ہوگا۔۔۔۔۔"
تم اپنے بابا اور آغا جان کی باتوں میں مت آنا۔۔۔
"میں نے اپنے بابا جان کو کبھی التجا کرتے نہیں دیکھا ماما۔۔۔۔"وہ بے بسی سے اپنی ماں کے چہرے کو دیکھنے لگی اور
باپ کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو سوچنے لگی۔۔۔۔
"مگر آغا جان تو ہم سے بہت محبت کرتے ہیں مما۔۔۔۔"
"تم ان کی چار دن کی محبت میں میری محبت کو بھول گئی۔۔۔میری بات سمجھنے کی کوشش کرو نورجہاں۔۔۔جلد بازی میں
کوئی فیصلہ مت کرنا۔۔۔ میں تمہارے ساتھ کوئی زبردستی نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔تم بے خوف ہو کر انکار کر دو۔۔۔۔"
ماما ایسا مت کریں مجھے آپ کی محبت کی ضرورت ہے۔۔۔"
"ہاں کرتی ہوں تم سے محبت اسلیے ہی کہہ رہی ہو انکار کر دو۔۔۔۔"
"مگر بابا اور آغا جان کی محبت۔۔۔ اس نے آنکھیں موند لیں مجھے سوچنے دےں ماما پلیززززز"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
Welcome to all member's
Yum Stories provide you premium quality Stories/Novels we post famous stories we upload stories that you never read before and it's free of cost
you can click on story name and you'll redirect to story
And many more like only on Yum Stories
↓Share Stories with your buddie's Enjoy↓
